یوم پیدائش 16 مارچ 1941
قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں
ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں
میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں
تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو
کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق
کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں
تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے
میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں
آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے
آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں
میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے
اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں
وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے
وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں
میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو
روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں
روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر
جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں
خورشید افسر بسوانی
No comments:
Post a Comment