Urdu Deccan

Tuesday, March 1, 2022

شاہد ماہلی

 یوم پیدائش 01 مارچ1974


حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا 

گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا 


سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں 

کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا 


تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر 

مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا 


جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا 

وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا 


وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ 

یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا 


مجھے تباہ کیا التفات نے اس کے 

اسے بھی آ نہ سکا راس دوستانہ مرا 


کسے قبول کریں اور کس کو ٹھکرائیں 

انہیں سوالوں میں الجھا ہے تانا بانا مرا 


شاہد ماہلی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...