یوم پیدائش 06 مارچ 1976
عبث وجود کا دکھ تنگیٔ حیات کا دکھ
کہ دل نے پالا ہوا ہے ہر ایک ذات کا دکھ
تلاش جنت و دوزخ میں رائیگاں انساں
زمیں پہ روز مناتا ہے کائنات کا دکھ
کئی جھمیلوں میں الجھی سی بد مزہ چائے
اداس میز پہ دفتر کے کاغذات کا دکھ
تمام دن کی مصیبت تو بانٹ لی ہم نے
کبھی کہا ہی نہیں اپنی اپنی رات کا دکھ
گئے دنوں کا کوئی خواب دفن ہے شاید
کہ اب بھی آنکھ سے رستا ہے باقیات کا دکھ
امام تشنہ کی اولاد ٹھہری ہوں آخر
سو مجھ کو یکساں ملا راوی و فرات کا دکھ
نہ جانے مالک کن کس طرح نبھاتا ہے
یہ دسترس کی سہولت یہ ممکنات کا دکھ
صائمہ آفتاب
No comments:
Post a Comment