یوم پیدائش 01 مارچ 1965
یہاں انصاف کا سودا ہوا ہے
یہ منظر تو مرا دیکھا ہوا ہے
جبین شعر پر لکھا ہوا ہے
تری محفل میں فن رسوا ہوا ہے
کبھی جو چڑھتے دریا کی طرح تھا
اب اپنی ذات میں سمٹا ہوا ہے
ہمیں پھر زخم اپنوں نے دیے ہیں
کہ خود ہم کو کوئی دھوکہ ہوا ہے
جنون رہبری ہے جسکے دل میں
وہ خود ہی راہ سے بھٹکا ہوا ہے
غزل جب میں نے اسکے نام کر دی
تو خاص و عام میں چرچا ہوا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے لیکن
مقدر کا بھی کچھ لکھا ہوا ہے
ہوئی ہر شے گراں اے سوز لیکن
لہو اپنا بہت سستا ہوا ہے
خورشید اکرم سوز
No comments:
Post a Comment