یوم پیدائش 05 مارچ 1938
عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے
آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے
جب شعور انسانی رابطے کا پیاسا تھا
حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے
فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر
اعتبار ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے
مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں
خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے
خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا
منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے
غالب عرفان
No comments:
Post a Comment