یوم پیدائش 08 مارچ 1942
نظم
برف یوں ہی گرے
چوٹیوں کو پہاڑوں کی ڈھکتی رہے
کوہساروں میں چاندی پگھلتی رہے
آگ جلتی رہے
مینہ برستا رہے
آرزؤں کے بے چین سے قافلے
یوں ہی آہستگی سے سرکتے رہیں
ہم یوں ہی خواب کی وادیوں سے گزرتے رہیں
ہم یوں ہی ہر طرف
وادیوں کوہساروں میں تحلیل ہوتے رہیں
درختوں کی شاخوں پہ اس طرح ہی
صاف شفاف موتی دمکتے رہیں
رقص شاخوں کا پیہم ہی جاری رہے
برف کی آگ بس یوں ہی جلتی رہے
برف یوں ہی گرے
نجمہ محمود
No comments:
Post a Comment