یوم پیدائش 10 مارچ 1954
وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے
متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے
دئے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر
اے تند و تیز ہوا تجھ کو برہمی نہ رہے
بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے
چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے
کوئی بھی لمحہ گزرتا نہیں ہے تیرے بغیر
تعلقات میں ایسی بھی چاشنی نہ رہے
ہمارے حوصلے کو دیکھ کر یہ کہتے ہو
زبان بند رہے آنکھ میں نمی نہ رہے
ملے جو روشنی تجھ سے تو ظلمتیں کم ہوں
کہ تیرے بعد مری جان زندگی نہ رہے
لبوں پہ آ گیا دم اپنا حبس موسم میں
ہوائے ابر بہاراں یوں ہی تھمی نہ رہے
شہناز مزمل
No comments:
Post a Comment