Urdu Deccan

Thursday, April 14, 2022

شہناز مزمل

 یوم پیدائش 10 مارچ 1954


وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے 

متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے 


دئے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر 

اے تند و تیز ہوا تجھ کو برہمی نہ رہے 


بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے 

چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے 


کوئی بھی لمحہ گزرتا نہیں ہے تیرے بغیر 

تعلقات میں ایسی بھی چاشنی نہ رہے 


ہمارے حوصلے کو دیکھ کر یہ کہتے ہو 

زبان بند رہے آنکھ میں نمی نہ رہے 


ملے جو روشنی تجھ سے تو ظلمتیں کم ہوں 

کہ تیرے بعد مری جان زندگی نہ رہے 


لبوں پہ آ گیا دم اپنا حبس موسم میں 

ہوائے ابر بہاراں یوں ہی تھمی نہ رہے


شہناز مزمل



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...