یوم پیدائش 12 اپریل 1962
نظم زندگی کی سگریٹ
تمہارے ساتھ پینے کی خاطر
میں نے اپنے سوچنے کی صلاحیت
تمہارے نام کر دی تھی
اور وہ تمام مکھوٹے
تمہارے کمرے میں سجا دئے تھے
جنہیں تم نے عمر بھر
شکار کیا تھا
میں اپنی ساری خوشبوئیں
خرچ کر کے
تمہارا پورا درد خرید رہی تھی
لیکن تم نے آنکھوں پر ہی نہیں
دماغ پر بھی پٹی باندھ رکھی تھی
سڑک حادثے کے بعد
میرا پلستر چڑھتے سمے
جو تم نے ایک لمحے کو
اپنی آنکھوں کی پٹی کھول دی تھی
تمہارا سر جھک گیا تھا
مجھے معلوم تھا میں تمہیں کھو دوں گی
جو کھو جاتا ہے
اس کے کھونے کا افسوس گانٹھ بن جاتا ہے
میں اگرچہ ہل نہیں سکتی تھی
سوچنے سے محروم نہیں تھی
اور دنیا سوچنے سے عبارت ہے
میری آنکھیں سوج گئی تھیں بند نہیں تھیں
اور کانوں میں وہ سب آوازیں آ رہی تھیں
جب تم میرے حافظے کے مفلوج ہو جانے کا اعلان کر رہے تھے
میں دیکھ رہی تھی
لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوئے تھے
لیکن تمہارے دماغ پہ لگائی ہوئی پٹی
سب کو نظر آ گئی تھی
تم جان لو کہ دنیا سوچنے سے عبارت ہے
اب زندگی کی سگریٹ صرف میں پیوں گی
اور تم سگریٹ کی راکھ کی طرح
میری انگلیوں سے جھڑتے رہوگے
شبنم عشائی
No comments:
Post a Comment