Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

قیصر شمیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1936


کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں 

گھرا ہوا ہوں ابھی تک انا کے بندوں میں 


نہ کوئی سمت مقرر نہ کوئی جائے قرار 

ہے انتشار کا عالم ہوا کے بندوں میں 


وہ کون ہے جو نہیں اپنی مصلحت کا غلام 

کہاں ہے بوئے وفا اب وفا کے بندوں میں 


خدا کرے کہ سماعت سے میں رہوں محروم 

کبھی جو ذکر ہو میرا ریا کے بندوں میں 


سزائیں میری طرح ہنس کے جھیلنے والا 

نہیں ہے کوئی بھی عہد سزا کے بندوں میں 


نہ عافیت کی سحر ہے نہ انبساط کی شام 

ہوں ایک عمر سے صحرا بلا کے بندوں میں 


سخن شناس ہے کتنا یہ پوچھ لوں قیصرؔ 

نظر وہ آئے جو حرف و نوا کے بندوں میں 


قیصر شمیم



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...