یوم پیدائش 02 اپریل 1936
کہاں ہے کوئی خدا کا خدا کے بندوں میں
گھرا ہوا ہوں ابھی تک انا کے بندوں میں
نہ کوئی سمت مقرر نہ کوئی جائے قرار
ہے انتشار کا عالم ہوا کے بندوں میں
وہ کون ہے جو نہیں اپنی مصلحت کا غلام
کہاں ہے بوئے وفا اب وفا کے بندوں میں
خدا کرے کہ سماعت سے میں رہوں محروم
کبھی جو ذکر ہو میرا ریا کے بندوں میں
سزائیں میری طرح ہنس کے جھیلنے والا
نہیں ہے کوئی بھی عہد سزا کے بندوں میں
نہ عافیت کی سحر ہے نہ انبساط کی شام
ہوں ایک عمر سے صحرا بلا کے بندوں میں
سخن شناس ہے کتنا یہ پوچھ لوں قیصرؔ
نظر وہ آئے جو حرف و نوا کے بندوں میں
قیصر شمیم
No comments:
Post a Comment