یوم پیدائش 02 اپریل 1963
تری یادوں کے دریا میں اترنا بھی ضروری تھا
جدائی بھی ضروری تھی ، ابھرنا بھی ضروری تھا
کیا ہوتا وفا وعدہ تجھے شہرت نہیں ملتی
تجھے وعدوں سے اپنے تو مکرنا بھی ضروری تھا
تری گلیوں میں جاتا تھا میں اکثر بے ارادہ بھی
تجھے دیکھے بنا جانم گزرنا بھی ضروری تھا
محبت کو نبھانا تھا مجھے ہر حال میں جاناں
نظر میں دہر کی ایسے سنورنا بھی ضروری تھا
سمیٹے میں نے رکھا تھا سبھی ماضی کی یادوں کو
پھر اک اک کر کے ان کا تو بکھرنا بھی ضروری تھا
بلندی پر وہ پہنچا تھا رعونت سے نہ بچ پایا
فہیمِ خوش نوا اس کا اترنا بھی ضروری تھا
فہیم الدین فہیم
No comments:
Post a Comment