Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

ارشد کاکوی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1928


ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول 

ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول 


اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو 

عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول

 

ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے 

جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول 


اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں 

زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول 


آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ 

دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول

 

دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد 

پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول 


ارشد کاکوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...