یوم پیدائش 01 اپریل 1928
ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول
اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو
عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول
ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے
جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول
اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں
زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول
آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ
دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول
دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد
پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول
ارشد کاکوی
No comments:
Post a Comment