یوم پیدائش 01 اپریل 1985
جسے بھی دیکھو اڑاتا ہے اب ہنسی میری
تماشا بن گئی گویا کہ سادگی میری
یہ اور بات کہ روشن کیا زمانے کو
مگر مجھی کو نہ مل پائی روشنی میری
دعا کرو کہ پھڑک جائے یہ رگِ احساس
بجا رہا ہے کوئی اور بانسری میری
میں اک حقیر سا جگنو ہوں ذات میں اپنی
مگر چراغ کو چبھتی ہے روشنی میری
یہ سوچ کر بھی گناہوں سے باز رہتا ہوں
نہ جانے کون سی ہو سانس آخری میری
ہمیشہ ساتھ جو سائے کی طرح رہتا ہے
قبول کرتا نہیں وہ بھی برتری میری
گلہ میں غیر سے کرتا نہیں کبھی الیاس
ہمیشہ اپنے ہی کرتے ہیں جب نفی میری
الیاس عباسی
No comments:
Post a Comment