یوم پیدائش 07 اپریل 1985
زمین کے لئے ہوں اور نہ آسماں کے لئے
میں نجم ِ اشک ہوں بس یادِ رفتگاں کے لِئے
سوال نامے کی تیاری میں لگی ہُوئی ہوں
ابھی میں آئی نہیں تیرے امتحاں کے لئے
یہ میرے زرد سے گالوں سے کہہ رہی ہے بہار
میں تُم کو سُرخ بناوؑں گی گلستاں کے لئے
میں سر سے پیر تلک خوب خرچ ہو چکی ہوں
بچا نہیں ہے محبت میں کچھ زیاں کے لئے
مقام کب تھا کہ ساحل کی ریت میں دھنستا
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے
ذیادہ چاھیئے آرائیش ِزمینِ قدیم
فلک کو خط لکھوں گی رقص ِ کہکشاں کے لئے
میں کم خیال رہوں یہ مجھے قبول نہیں
یقین کو چھوڑ رہی ہوں ترے گماں کے لئے
قدم جہاں بھی مری سطر میں پڑے تیرے
بچھا رہی ہوں ستارے وہاں وہاں کے لئے
تجھے قریب سے دیکھوں گی میرے ماہِ تمام
میں دل سے زینہ بناوؑں گی آسماں کے لئے
ؐخیال ِ یار میں سوچوں گی نظم تیرے لئے
غزل تو ہو گئی دلداری ء بیاں کے لئے
شہلا شہناز
No comments:
Post a Comment