یوم پیدائش 07 اپریل 1978
اپنی نظروں سے شب و روز گراتا ہے مجھے
میری اوقات کا احساس دلاتا ہے مجھے
اس کے معیار پہ پورا میں اترتا ہی نہیں
زاویے روز بدل کر وہ بناتا ہے مجھے
چارہ گر مجھ کو بظاہر تو کوئی دکھ ہی نہیں
میرے اندر کا کوئی کرب رلاتا ہے مجھے
جب کبھی دل میں مچلتی ہیں پرانی یادیں
اپنے اشکوں کی روانی سے بہاتا ہے مجھے
مجھ سے وابستہ مرے گاوں کی امیدیں ہیں
روشنی جس کو ہو درکار! جلاتا ہے مجھے
میں کوئی اتنا بھی انمول نہیں ہوں سرمد
جتنا دنیا کی وہ نظروں سے بچاتا ہے مجھے
صدیق سرمد
No comments:
Post a Comment