یوم پیدائش 27 اپریل 1984
دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ
گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ
ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں
ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ
پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی
پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ
ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں
سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ
مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا
بدن کی شاخ پہ کھلتے ہوئے گلاب کے ساتھ
کچھ اور چاہیے تشنہ لبی مٹانے کو
یہ پیاس وہ ہے جو بجھتی نہیں شراب کے ساتھ
زعیمؔ وہ مری دریا دلی سے ڈرتا ہے
وہ مجھ سے ملتا ہے لیکن بڑے حساب کے ساتھ
زعیم رشید
No comments:
Post a Comment