یوم پیدائش 14 اپریل
جب سے پلٹا تھا تُو من میں رنجش لیے
دل سلگتا رہا ایک تابش لیے
کھا گئی لفظ لہجے کی تلخی مگر
معنی بیٹھے رہے بس گزارش لیے
آنکھ دامن میں بھر کے مناظر سبھی
چل پڑی ساتھ صدیوں کی بارش لیے
رات بہتی رہی پھر اُفق تا اُفق
اِک مرادوں بھرے دن کی خواہش لیے
وقت کا دائرہ ٹوٹتا ہی نہیں
لمحہ لمحہ، نئی آزمائش لیے
شاھین کاظمی
No comments:
Post a Comment