یوم پیدائش 20 اپریل 2000
جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی
پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی
ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا
ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی
نقشہ بھی تھا رستہ بھی تھا ہمت بھی تھی لیکن
کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی
تھا تیرا تبسّم ہی مری جان قیامت
لیکن جو تری مجھ کو ستانے کی "نہیں" تھی
کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں
یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی
آج اس کی صدا پر کوئی لبّیک نہ بولا
وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی "نہیں" تھی
جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا
جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی
جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا
جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی
کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن
نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی
جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
خو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی
اِمتیاز انجم
No comments:
Post a Comment