یوم پیدائش 28 اپریل
دور کرنے کو یہ تنہائی کہاں سے آئی
تو نہیں ہے تو یہ پرچھائی کہاں سے آئی
آنکھ رکھ کر ہوا جاتا ہے خدا کا منکر
وہ نہیں ہے تو یہ بینائی کہاں سے آئی
سبز کوسار چمن زار درختوں کی قطار
جو زمیں آپ کو دکھلائی کہاں سے آئی
بام و در دیکھ کہ حیران ہیں آنکھیں میری
ایسی دیواروں پہ یہ کائی کہاں سے آئی
دیکھ کر غرق ہوئی جاتی ہے ساری دنیا
تیری آنکھوں میں یہ گہرائی کہاں سے آئی
تیری رعنائیِ قدرت پہ تعجب ہے خدا
ان پہاڑوں میں یہ اونچائی کہاں سے آئی
تیرے سجدوں پہ تو نازاں ہیں فرشتے سارے
تجھ میں ارپتؔ یہ جبیں سائی کہاں سے آئی
ارپیت شرما
No comments:
Post a Comment