یوم پیدائش 04 اپریل 1975
خون کی حدتوں میں اتری ہے
اک اداسی رگوں میں اتری ہے
کیا خبر ہے کہ دن کہاں بچھڑا
رات کب کھڑکیوں میں اتری ہے
جو مسافت بھی پاؤں سے الجھی
بے جہت راستوں میں اتری ہے
پھر جزیرے نگل گیا ساگر
پھر زمیں پانیوں میں اتری ہے
اب کے رفعت ہماری بینائی
پھیلتے فاصلوں میں اتری ہے
رفعت وحید
No comments:
Post a Comment