یوم پیدائش 01 اپریل 1975
ہمیشہ ہجرتوں کے سلسلے اچھے نہیں لگتے
ہمیں اب روکھے پھیکے ذائقے اچھے نہیں لگتے
ستارے ان کی منزل کا کبھی عنواں نہیں بنتے
جنھیں پُرخار تنہا راستے اچھے نہیں لگتے
مجھے اڑجانے دے تاکہ فضا کا جائزہ لے لوں
سنہری پٹیوں سے پر بندھے اچھے نہیں لگتے
ستاروں کو کہاں آرام ملتا ہے اندھیرے میں
جبھی تو مجھ کو یہ جلتے دیئے اچھے نہیں لگتے
کبھی وہ بات بھی کہہ دے کہ جو دل میں اتر جائے
بنا سر پیر کے کچھ فلسفے اچھے نہیں لگتے
اگر بہہ جائیں آنسو تو کھلے رخسار کی رنگت
رکے پلکوں پہ تو یہ قافلے اچھے نہیں لگتے
میں اپنے ہی جنوں سے ایک نیا عالم بناؤں گا
مجھے پابند کرتے دائرے اچھے نہیں لگتے
افروز عالم
No comments:
Post a Comment