یوم پیدائش 01 اپریل 1934
آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا
میں اس قدر اڑا کہ خلاؤں میں کھو گیا
کترا رہے ہیں آج کے سقراط زہر سے
انسان مصلحت کی اداؤں میں کھو گیا
شاید مرا ضمیر کسی روز جاگ اٹھے
یہ سوچ کے میں اپنی صداؤں میں کھو گیا
لہرا رہا ہے سانپ سا سایہ زمین پر
سورج نکل کے دور گھٹاؤں میں کھو گیا
موتی سمیٹ لائے سمندر سے اہل دل
وہ شخص بے عمل تھا دعاؤں میں کھو گیا
ٹھہرے ہوئے تھے جس کے تلے ہم شکستہ پا
وہ سائباں بھی تیز ہواؤں میں کھو گیا
کاملؔ بہزادی
No comments:
Post a Comment