یوم پیدائش 05 مئی 1981
کر کے وعدہ مکر گیا ہے وہ
اشک آنکھوں میں بھر گیا ہے وہ
ایک لمحے میں اپنے لہجے سے
سب کے دل سے اتر گیا ہے وہ
ہر قدم پر اسے ملے کانٹے
اب تو پھولوں سے ڈر گیا ہے وہ
آؤ چل کر اسے سنبھالیں اب
ہر طرف سے بکھر گیا ہے وہ
ساری بستی گلوں سے مہکی ہے
کیا ادھر سے گذر گیا ہے وہ
روز ملتا ہے وہ کتابوں میں
کون کہتا ہے مر گیا ہے وہ
اس کو دیکھے بنا نہ چین آئے
مجھ پہ جادو سا کر گیا ہے وہ
ہر قدم پہ جو ساتھ تھا ناظم
آج جانے کدھر گیا ہے وہ
ناظم قادری شکوہ آبادی
No comments:
Post a Comment