یوم پیدائش 06 مئی 1969
ننھے سے دل پی عشق کا بھاری دباؤ ہے
فکر معاش کا بھی مسلسل تناؤ ہے
سجدہ کہاں کریں؟ کہ ہیں بے ربط نقش پا
آندھی مسافتوں کا جہاں پر پڑاؤ ہے
آسیب چشم یار بسا ہے نفس نفس
آنکھیں لہو لہو ہیں جگر گھاؤ گھاؤ ہے
میرا تھا انتخاب غلط تیری کیا خطا
بحر خلش میں اس لئے الفت کی ناؤ ہے
یوں آتش حسد بھی جلانے لگی مجھے
سینے میں جیسے کوئی دہکتا الاؤ ہے
انساں کے دل میں لغزش آدم ہے مشتعل
بس اس لئے گناہ کی جانب کھچاؤ ہے
نفرت کو زیر کرتا ہے الفت سے اب مجھے
اس کا تو داؤ چل چکا اب میرا داؤ ہے
اب تو سخنوری کا زمانہ نہیں مسیح
شعر و سخن بھی آج تو مٹی کا بھاؤ ہے
مسیح الرحمن
No comments:
Post a Comment