Urdu Deccan

Saturday, May 14, 2022

محور سرسوئی

 یوم پیدائش 06 مئی 1997


شاخ پر طائر نہیں محو فغاں بیٹھا ہوا

ہے کوئی عاشق سر فصل خزاں بیٹھا ہوا


مے کدے میں نصف شب تشنہ دہاں بیٹھا ہوا

مضطرب مصروف یاد رفتگاں بیٹھا ہوا 


علم رکھتا ہوں وہاں کا میں یہاں بیٹھا ہوا

کون ہے عقل و خرد کے درمیاں بیٹھا ہوا


بے سکوں افسردہ دل بے آستاں بیٹھا ہوا

کر رہا ہے وقت اپنا رائیگاں بیٹھا ہوا


صبر کی تلقین پڑھتا ہے خود اپنی لاش پر

دل کے قبرستان میں اک نو جواں بیٹھا ہوا 


اپنا لہجہ اپنی باتیں اپنا انداز سخن

کر رہا ہے داستان غم بیاں بیٹھا ہوا


نقش ہے پانی پہ عکس پیکر شمس و قمر 

"ہم نے دیکھا ہے زمیں پہ آسماں بیٹھا ہوا"


مصلحت کی تیغ سے اپنی زبانیں کاٹ کر

ہر بشر اپنی جگہ ہے بے زباں بیٹھا ہوا


حیف ہے خستہ دلی پہ محور رنج و الم

وائے ہو ہنستا رہا پیر مغاں بیٹھا تھا


محور سرسوئی



 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...