یوم پیدائش 06 مئی 1976
ہر شہر جل رہا ہے کدھر جائے گا دھواں
اپنی گھٹن میں گھٹ کے ہی مر جائے گا دھواں
مذہب کے نام پر جو لگاؤگے آگ تم
سینے میں ہر کسی کے اتر جائے گا دھواں
مانگو دعائیں تیز ہوا اب کے چل پڑے
ورنہ بھلا یہ کیسے بکھر جائے گا دھواں
کچھ دیر سائے میں تو رہے گا ہمارا شہر
اپنے سروں سے جب بھی گزر جائے گا دھواں
کہہ دے کوئی ہواؤں سے چھیڑے نہ شمع کو
گر بجھ گئی تو لے کے خبر جائے گا دھواں
سانسوں میں ہے گھٹن سی سبھی سوچنے لگے
آیا کدھر سے اور کدھر جائے گا دھواں
لکھو گے کیا حبیب بتاؤ نئی غزل
کاغذ سیاہ کرکے اگر جائے گا دھواں
حبیب ندیم
No comments:
Post a Comment