Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

گل بخشالوی

یوم پیدائش 30 مئی 1952

قلم ، صدا و قدم جب بھی تو اٹھائے گا
نظام جبر ترا خون ہی بہائے گا

ہمیں امید تھی آئے گی کوئی تبدیلی
خبر نہیں تھی ہمیں تو بھی گل کھلائے گا

کبھی یہ سوچنا اس دور خود پرستی میں
ترے ضمیر کو آکر کوئی جگائے گا

دبی ہے راکھ میں معصوم سی جو چنگاری
بھڑک اٹھی تو کوئی بھی بجھا نہ پائے گا

مرا وجود ہے سیسہ مرے عقیدے کا
میں دیکھتا ہوں کہاں تک تو آزمائے گا

نہا رہا ہے جن آنکھوں میں دیس کو اپنے
لہو میں دیکھنا اپنے بھی تو نہائے گا

نظام وقت کے کم بخت جابر و ظالم
کھبی نہ سوچنا گل تیرے گیت گائے گا

گل بخشالوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...