قلم ، صدا و قدم جب بھی تو اٹھائے گا
نظام جبر ترا خون ہی بہائے گا
ہمیں امید تھی آئے گی کوئی تبدیلی
خبر نہیں تھی ہمیں تو بھی گل کھلائے گا
کبھی یہ سوچنا اس دور خود پرستی میں
ترے ضمیر کو آکر کوئی جگائے گا
دبی ہے راکھ میں معصوم سی جو چنگاری
بھڑک اٹھی تو کوئی بھی بجھا نہ پائے گا
مرا وجود ہے سیسہ مرے عقیدے کا
میں دیکھتا ہوں کہاں تک تو آزمائے گا
نہا رہا ہے جن آنکھوں میں دیس کو اپنے
لہو میں دیکھنا اپنے بھی تو نہائے گا
نظام وقت کے کم بخت جابر و ظالم
کھبی نہ سوچنا گل تیرے گیت گائے گا
No comments:
Post a Comment