خاموشی کی وادی ہو اور آبادی کی بیلا ہو
بستی کی تنہائی سے کٹ کر جیسے کوئی اکیلا ہو
اس دل سے ان آنکھوں کے رشتے کو بھی تفہیم ملے
اک صحرا کی پیاس بہم ہو اک دریا کا ریلا ہو
باہر سب ہم وار ہے لیکن اندر سلوٹ سلوٹ ہے
دو لفظوں کی کاٹ کو جیسے روح نے خود پر جھیلا ہو
تسلیمات کے سبز پھریرے دالانوں تک آتے ہوں
افق افق پر رقص کرے دن، دن بھی نیا نویلا ہو
پڑے پڑے ہی سو جائیں ہم رکھے رکھے ہی کھو جائیں
شام منڈیریں چوم رہی ہو خواب نگر میں میلہ ہو
جان! گزرتے دن کی حد تک بارِ اذیت جھیلتا ہے
چاہے سوچ کا جلتا ورق ہو چاہے آنکھ کا ڈھیلا ہو
کون آجر ہو ایسے دل کا ایسی جان کی اجرت کیا
کیا بنتا ہے حصہ اس کا جس نے وقت دھکیلا ہو
دونوں طرف کی بانجھ زمینیں ساختوں سے بھر جائیں گی
اک جھرنا انفاس کا ہو اور اک احساس کا ریلا ہو
اس سنجوگ کی بوندوں کے کچھ رنگ اکہرے تھے جیسے
بے ترتیب سی آسانی میں بے انداز ،جھمیلا ہو
زیست مسلسل رنگ بدلتی اک تکرار کی صورت ہے
وہ امکان بدست آئے گا جس نے کھیل یہ کھیلا ہو
اس بازار میں زرد دوپہریں ڈھل جانے کے بعد خمار
اک سے خواب ہیں سب آنکھوں میں جیب میں جیسا دھیلا ہو
No comments:
Post a Comment