Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

خمار میرزادہ

یوم پیدائش 30 مئی 1984

خاموشی کی وادی ہو اور آبادی کی بیلا ہو
بستی کی تنہائی سے کٹ کر جیسے کوئی اکیلا ہو

اس دل سے ان آنکھوں کے رشتے کو بھی تفہیم ملے
اک صحرا کی پیاس بہم ہو اک دریا کا ریلا ہو

باہر سب ہم وار ہے لیکن اندر سلوٹ سلوٹ ہے
دو لفظوں کی کاٹ کو جیسے روح نے خود پر جھیلا ہو

تسلیمات کے سبز پھریرے دالانوں تک آتے ہوں
افق افق پر رقص کرے دن، دن بھی نیا نویلا ہو

پڑے پڑے ہی سو جائیں ہم رکھے رکھے ہی کھو جائیں
شام منڈیریں چوم رہی ہو خواب نگر میں میلہ ہو

جان! گزرتے دن کی حد تک بارِ اذیت جھیلتا ہے
چاہے سوچ کا جلتا ورق ہو چاہے آنکھ کا ڈھیلا ہو

کون آجر ہو ایسے دل کا ایسی جان کی اجرت کیا
کیا بنتا ہے حصہ اس کا جس نے وقت دھکیلا ہو

دونوں طرف کی بانجھ زمینیں ساختوں سے بھر جائیں گی
اک جھرنا انفاس کا ہو اور اک احساس کا ریلا ہو

اس سنجوگ کی بوندوں کے کچھ رنگ اکہرے تھے جیسے
بے ترتیب سی آسانی میں بے انداز ،جھمیلا ہو

زیست مسلسل رنگ بدلتی اک تکرار کی صورت ہے
وہ امکان بدست آئے گا جس نے کھیل یہ کھیلا ہو

اس بازار میں زرد دوپہریں ڈھل جانے کے بعد خمار
اک سے خواب ہیں سب آنکھوں میں جیب میں جیسا دھیلا ہو

خمار میرزادہ


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...