یوم پیدائش 02 مئی 1973
جہد کرتا رہے زندگی کے لیے
ہے مناسب یہی آدمی کے لیے
جب چراغوں کی لو سرد ہونے لگے
دلا جلایا کرو روشنی کے لیے
حق کے رستے میں مرنا بھی ہے زندگی
ہاتھ پھیلائیں کیوں زندگی کے لیے
خوش جو ہوتا رہا ہے خوشی بانٹ کر
وہ ترسنے لگا ہے خوشی کے لیے
لوگ فٹ پاتھ پر آکے رہنے لگے
شہر میں گھر نہیں آدمی کے لیے
قافلہ لوٹ لیتا ہے جو راہ میں
چن لیا پھر اسے رہ بری کے لیے
یہ تو کہنے کی باتیں ہیں نشترؔ میاں
کوئی مرتا نہیں ہے کسی کے لیے
نشتر شہودی
No comments:
Post a Comment