کسی سے بوجھ ہٹایا کسی پہ ڈالا گیا
اِسی طرح سےکڑے موسموں کو ٹالا گیا
کسی نے ہاتھ اٹھایا بوجہِ سیریِ جاں
کسی کے ہاتھ سے سوکھا ہوا نوالہ گیا
طرح طرح کے اندھیروں گزار کر ہم کو
تمام اپنا درون و بروں اجالا گیا
خجل خیال خرابوں بھٹک رہے ہوتے
حجاب و ہَول حوالوں ہمیں سنبھالا گیا
ہماری خاک جدا پانیوں سے گوندھی گئی
الگ شباہت و سیرت میں ہم کو ڈھالا گیا
تہی نہ جائے گی کاوش کبھی زمانے کی
ہماری راکھ کو جس عہد بھی کھنگالا گیا
گھٹا تو سکتے ہیں وہ لَو بجھا نہیں سکتے
چراغ اپنا سرِ وقت یوں مثالا گیا
مسلسل اُس کی صدا گونجتی ہے گلیوں میں
اگرچہ کب کا وہ بستی بسانے والا گیا
ہوا پڑا تھا سوادِ وجود زیر و زبر
وہ اک نگاہ اٹھی اور سب بحالا گیا
No comments:
Post a Comment