یوم پیدائش 05 مئی 1939
جہانِ شوق میں سرمایۂ خوشی کیا ہے
جو تیرے ساتھ نہ گزرے تو زندگی کیا ہے
سرِ نیاز جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا
خلوصِ دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے
نہ چھیڑ قیصر و کسریٰ کے تذکرے مجھ سے
فقیرِ مست کے آگے شہنشہی کیا ہے
بنا لیا انھیں سالارِ قافلہ ہم نے
جنھیں یہ علم نہیں ہے کہ رہبری کیا ہے
لقب ہے نورؔ ہمارا ، یہ فخر ہے ہم کو
ہمارے سامنے اوقاتِ تیرگی کیا ہے
نور قریشی
No comments:
Post a Comment