Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

اکبر وارثی میرٹھی

یوم وفات 20 مئی 1953

راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں 
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں 

جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں 
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں 

داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے 
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں 

تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں 

اس بت‌ نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار 
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں 

ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص 
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں 

بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں 
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں 

سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم 
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں 

جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب 
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں 

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن 
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں 

کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں 
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں 

کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل 
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...