کہیں نہ جی لگے ، ہم کیا کریں کدھر جائیں
ہمیں نہ دشت نہ گلشن نہ انجمن بھائیں
کہ بحرِعشق میں ملتا ہے لطفِ جان کنی
یہاں پہ تیرنے والے بھی ڈوبتے جائیں
یہ میرا دل ہے، یہ کوئی سرائے تو نہیں ہے
ہوئی ہے آپ کو وحشت تو دشت کو جائیں
خدا کرے وہ سدا اب رہیں رقیب نواز
نہ میرا حال وہ پوچھیں ، نہ میرا غم کھائیں
No comments:
Post a Comment