ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتاہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے
اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسی کوبھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
صحافت آج بے شرمی کا چولا اوڑھ بیٹھی ہے
جو جی میں آئے وہ کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں
مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے
حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی
میاں عرفان چُپ رہیے کسے کیا فرق پرتا ہے
No comments:
Post a Comment