یوم پیدائش 07 مئی 1943
جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے
جب رات اندھیری ہو تو بینائی بھی کیا ہے
جب ڈوبنا ٹھہرا ہے تو طوفاں کا کسے خوف
جب اشک سمندر ہوں تو گہرائی بھی کیا ہے
جب زخم ہوں سینے میں تو پھر درد ہے کیا چیز
گلشن میں مرے موج ہوا لائی بھی کیا ہے
پھر غیر کے ہر جھوٹ پہ کرتا ہے یقیں وہ
پھر شوق کو سکتہ ہے کہ سچائی بھی کیا ہے
پھر عمر گریزاں نے کہا جاؤ چلے جاؤ
کیا اس سے کہو گے وہاں سنوائی بھی کیا ہے
پھر دل نے کہا ہنس کے وہ صحرا ہو قفس ہو
جب اس سے بچھڑنا ہے تو تنہائی بھی کیا ہے
پھر ذکر مرا سن کے کہا اس نے رئیسؔ ایک
بس چاک گریباں ہے وہ سودائی بھی کیا ہے
محمد رئیس علوی
No comments:
Post a Comment