Urdu Deccan

Saturday, May 14, 2022

محمد رئیس علوی

 یوم پیدائش 07 مئی 1943


جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے 

جب رات اندھیری ہو تو بینائی بھی کیا ہے 


جب ڈوبنا ٹھہرا ہے تو طوفاں کا کسے خوف 

جب اشک سمندر ہوں تو گہرائی بھی کیا ہے 


جب زخم ہوں سینے میں تو پھر درد ہے کیا چیز 

گلشن میں مرے موج ہوا لائی بھی کیا ہے 


پھر غیر کے ہر جھوٹ پہ کرتا ہے یقیں وہ 

پھر شوق کو سکتہ ہے کہ سچائی بھی کیا ہے 


پھر عمر گریزاں نے کہا جاؤ چلے جاؤ 

کیا اس سے کہو گے وہاں سنوائی بھی کیا ہے 


پھر دل نے کہا ہنس کے وہ صحرا ہو قفس ہو 

جب اس سے بچھڑنا ہے تو تنہائی بھی کیا ہے 


پھر ذکر مرا سن کے کہا اس نے رئیسؔ ایک 

بس چاک گریباں ہے وہ سودائی بھی کیا ہے 


محمد رئیس علوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...