جب کبھی اپنا گھر بناؤں گا
میں تجھے ہم سفر بناؤں گا
اے خدا بخش دے اڑان مجھے
میں کہاں بال و پر بناؤں گا
پنچھیوں سے مکالمہ کر کے
اپنے گھر میں شجر بناؤں گا
اپنے پیکر سے تنگ رہتا ہوں
میں اسے توڑ کر بناؤں گا
ایک تصویر ہوں مصور کی
نقش ہی عمر بھر بناؤں گا
سائباں کی تلاش کرتے ہوئے
دھوپ کی رہگزر بناؤں گا
ایک درویش مجھ سے کہتا ہے
میں تجھے معتبر بناؤں گا
تشنگی نے مجھے پکارا ہے
میں بھی اب چشم تر بناؤں گا
ایک میدان میں ہوں مدت سے
اب میں دیوار و در بناؤں گا
ایک تصویر ہے خیالوں میں
اب اسے سوچ کر بناؤں گا
پیڑ تو سوکھ ہی چکا ہے نوید
میں کہاں اب ثمر بناؤں گا
ایک تازہ غزل کہی ہے نوید
میں اسے پر اثر بناؤں گا
No comments:
Post a Comment