کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی
کیسے مانوں کہ فرنگی حکومت نہ رہی
جبکہ ہے جرگہ و جرمانہ و تعزیر وہی
کیسے مانوں کہ غلامی کی مصیبت نہ رہی
بیڑیاں پاوّں میں اور ہاتھوں میں زنجیر وہی
کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا
جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی
جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی
جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ہوگا شریعت کا نفاذ
جبکہ ساقی ہے وہی شاہد و میخانہ وہی
کیسے مانوں کہ بدل جا ئیں گے انکے انداز
جبکہ ہے نعرہ لا دینی و مستانہ وہی
کیسے میں قطرہ بے مایہ کو دریا کہہ دوں
کیسے میں خاک کے ذرے کو ثریا کہہ دوں
میر گل خان نصیر
No comments:
Post a Comment