جو ہیں رند ازل گلشن کو مے خانہ سمجھتے ہیں
کلی کو شیشۂ مے گل کو پیمانہ سمجھتے ہیں
حقیقت آشنائے گلستاں فصل بہاراں میں
ہجوم رنگ و بو کو برق کاشانہ سمجھتے ہیں
کسی دن جس کے شعلے خرمن ہستی کو پھونکیں گے
اسی بجلی کو ہم شمع طرب خانہ سمجھتے ہیں
نگاہیں ڈالتے ہیں مرکز وحدت سے کثرت پر
حرم میں رہ کے ہم راز صنم خانہ سمجھتے ہیں
چھپا لیتے ہیں ہر زخم جگر کو فصل گل میں بھی
چمن میں پھول منشائے غم پنہاں سمجھتے ہیں
علمؔ ربط دل و پیکاں اب اس عالم کو پہنچا ہے
کہ ہم پیکاں کو دل دل کو کبھی پیکاں سمجھتے ہیں
No comments:
Post a Comment