وصل کی ضد سے اٹھیں ہجر کو رویا نہ کریں
بیش قیمت ہیں یہ لمحے انہیں کھویا نہ کریں
ناصحا اور بتا ہم کو کہ کیا کیا نہ کریں
دن میں سویا نہ کریں رات کو جاگا نہ کریں
منزل ذکر رخ یار سے آگے کچھ ہو
ہم سے تو ہو نہیں سکتا اسے سوچا نہ کریں
ہم کو رہنا ہے اسی قریۂ کم نظراں میں
سخت مشکل ہے یہاں رہ کے دکھاوا نہ کریں
جھوٹ سو بار کہا جائے تو سچ لگتا ہے
مشورہ یہ ہے کہ خود پر بھی بھروسہ نہ کریں
یار کہتے ہیں کہ یہ طور جنوں اچھا نہیں
اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگایا نہ کریں
ہم نہیں کر سکے لوگوں کی نظر کو قابو
لڑکیوں سے کہو بارش میں یوں بھیگا نہ کریں
اب جدھر دیکھیے اک محشر خوبی ہے بپا
آرزو کس کی کریں کس کی تمنا نہ کریں
کیف ہیں آپ کوئی مجنوں و فرہاد نہیں
پا برہنہ نگہ خلق میں آیا نہ کریں
No comments:
Post a Comment