یوم پیدائش 02 مئی 1956
کہوں کیا غیر کو ، اپنا بھی جب اپنا نہیں ہوتا
یہ دنیا ہے یہاں کس موڑ پر دھوکا نہیں ہوتا
تمنا ، خواب ، آنکھیں ، عزت و عصمت ، وفاداری
یہاں پر بولیے کس چیز کا سودا نہیں ہوتا
ہمارے شہر میں منہہ دیکھ کر خیرات بٹتی ہے
یہاں روٹی اسے ملتی ہے جو بھوکا نہیں ہوتا
سمٹتی ہے خدائی تیرے دیوانوں کے ہاتھوں میں
یہ کس نے کہہ دیا قطرہ کبھی دریا نہیں ہوتا
کسی کے دل میں یادیں اور کسی کی آنکھ میں آنسو
سفر میں آدمی اے زندگی تنہا نہیں ہوتا
بدر الحسن بدر
No comments:
Post a Comment