یوم پیدائش 04 مئی 1965
بے حس کو احساس دلا کر چھوڑیں گے
آدم کو انسان بنا کر چھوڑیں گے
گیت جو نفرت کے گاتے ہیں سُن لیں وہ
سب کو پیار کا راگ سِکھا کر چھوڑیں گے
دیکھو جھوٹ کی شب کتنی اندھیاری ہے
اس میں سچ کے دیپ جلا کر چھوڑیں گے
دُوریاں ہم میں ڈال دی ہیں خُودغرضی نے
سب کو اک دُوجے سے ملا کر چھوڑیں گے
بولی ہر اک شے کی یاں پر لگتی ہے
اس لعنت سے نجات دلا کر چھوڑیں گے
کھنڈر بخشے ان جنگوں نے دھرتی کو
ان کھنڈرات میں پھول اگا کر چھوڑیں گے
پتھر دل احساس سے جو بھی عاری ہیں
ان کے دل میں درد بساکر چھوڑیں گے
اب تو وہ اوہام کادور تمام ہوا
فہم میں سوچ کی شمع جلا کر چھوڑیں گے
سجاد اختر خان
No comments:
Post a Comment