یوم پیدائش 04 مئی 1969
احسان کبھی کر کے جتایا نہیں کرتے
دریا میں بہا دیتے ہیں چرچا نہیں کرتے
ہم وسعتِ دامن پہ نظر رکھتے ہیں اپنی
اوروں کی عنایات پہ تکیہ نہیں کرتے
رکھتے ہیں قدم میرے، مرے عزم کی توقیر
اک بار بڑھیں آگے تو پلٹا نہیں کرتے
رکھتے ہیں بلندی پہ پہنچنے کی امیدیں
ہم سوئے فلک یوں ہی تو دیکھا نہیں کرتے
وہ ظلم کے سامان کی کرتے ہیں تجارت
الفت کے خریدار سے سودا نہیں کرتے
راحت کے ہر اک پل میں ترا شکر ہے یارب!
ایذا بھی ملے ہم کو تو شکوہ نہیں کرتے
اک روز ہمیں زیر زمیں جانا ہے اطہرؔ
اک پل بھی تکبر میں گزارا نہیں کرتے
اطہر مرشدآبادی
No comments:
Post a Comment