تلخی وقت سے ڈر جاتا ہے
وقت کا کیا ہے گذر جاتا ہے
کیا کوئی غم سے بھی مرجاتا ہے
زخم جیسا بھی ہو بھر جاتا ہے
زہر آلودہ ہیں الفاظ ان کے
جاتے جاتے ہی اثر جاتا ہے
جان قربان ترے وعدوں پر
روز وعدوں سے مکر جاتا ہے
اک نئے ولولے سے جیتا ہوں
وہ عیادت مری کر جاتا ہے
چند پہروں کی ہے شہرت ورنہ
اک نشہ ہے جو اتر جاتا ہے
میں بھی چپ چاپ رہا کرتا ہوں
وہ بھی خاموش گذر جاتا ہے
در و دیوار چمک اٹھتے ہیں
جب کوئی لوٹ کے گھر جاتا ہے
پال کر حسرتیں طاہر دل میں
اب کہاں دیدۂ تر جاتا ہے
No comments:
Post a Comment