Urdu Deccan

Wednesday, May 25, 2022

پروفیسر شمیم خنفی

یوم پیدائش 17 مئی 1939

کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں 
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں 

زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے 
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں 

سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر 
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں 

پتا آنکھوں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا 
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں 

ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو 
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں 

کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں 
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں 

یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے 
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں 

   پروفیسر شمیم خنفی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...