یوم پیدائش 17 مئی 1935
حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں
زلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر
میں ترے حلقۂ آداب کا محصور نہیں
دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں
دامن دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز
تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں
چند جام اور کہ میخانۂ جاں تک پہنچیں
ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں
سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح
دل بیباک بھی محفل کے تئیں اور نہیں
ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ
سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں
سب رسن بستۂ آزادیٔ ایمان ہوئے
اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں
اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں
دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں
No comments:
Post a Comment