یوم پیدائش 09 مئی 1973
موسم کا حال آنکھ کی کھڑکی بتائے گی
دن ڈھل گیا ہے شام کی سرخی بتائے گی
مرجھا گئے جو شاخ اجل پر کھلے گلاب
رس اڑ گیا ہے سانس کی تتلی بتائے گی
آنکھوں پہ اعتبار نہ کر فاصلہ تو دیکھ
دریا کے پار کیا ہے یہ کشتی بتائے گی
دیوار پر شبیہ بنائیں گی انگلیاں
کم روشنی فریب کو پنچھی بتائے گی
لا حاصلی کی سان پہ ازلوں کے ماجرے
صدیوں کی داستان بھی چٹکی بتائے گی
اپنی ہنسی کو حال کا پیمانہ کیجئے
جتنی خوشی ہے ناپ کے اتنی بتائے گی
فرح رضوی
No comments:
Post a Comment