جان و دل جس پر لٹاتے تھے کرم فرما گیا
موت سے پہلے منوں مٹی میں وہ دفنا گیا
جس کو اپنی عمر کی ساری کمائی سونپ دی
وہ صفِ اول میں دشمن کے مرے پایا گیا
ہورہی تھی جب سرِ محفل پذیرائی مری
پھول سا چہرہ کسی کا دفعتاً مرجھا گیا
اتنی مدت بعد بھی یہ سلسلہ ہے آج تک
اک ستم کرتا گیا اور دوسرا سہتا گیا
جیسے جیسے لوگ اپنی دل بری کھوتے گئے
دھیرے دھیرے شہر بھی جنگل نما ہوتا گیا
کِشتِ دل سوکھے پڑے ، فصلِ وفا مُرجھا گئی
دل کی وادی میں اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا
غیر کو دنیا میں کُل آسائشیں حاصل رہیں
اور اپنوں کو فقط وعدوں سے بہلایا گیا
No comments:
Post a Comment