نظم موت و حیات
ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی
آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی
پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی
آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی
موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی
زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی
No comments:
Post a Comment