تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے
گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟
وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف
یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟
تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!
یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟
داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے
شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے
آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے
میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے
دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے
ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے
منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے
No comments:
Post a Comment