خون پیتی ہے پیاس پانی کی
واہ کیا بات ہے جوانی کی
در حقیقت وہ اس کی دوزخ ہے
ہم سمجھتے ہیں موج زانی کی
یونہی دریا خراب کر ڈالا
پیاس تھی چند گھونٹ پانی کی
دھیرے دھیرے بنا خدا پہ یقین
پہلے تو سب نے بد گمانی کی
میری کوشش تو صرف اتنی ہے
مجھ پہ قسمت نے مہربانی کی
اپنا کردار ہے سفر ہی سفر
کوئی منزل نہیں کہانی کی
میں کہ ایماندار تھا شاہد
زندگی نے غلط بیانی کی
فراز شاہد
No comments:
Post a Comment