پہلے دھڑکن چھین کر انساں کو پتھرایا گیا
پھر نمائش کے لئے بازار میں لایا گیا
خالی کاسہ دے کے اک اندھے بھکاری کیطرح
دوسروں کے سامنے ہاتھ اس کا پھیلایا گیا
وقت نے مٹی کی دیرینہ رفاقت چھین لی
بد نصیبی دیکھئے دلدل میں دفنایا گیا
ہر نئی تہذیب ناگن بن کے اس کو ڈس گئی
کانچ کے برتن میں اس کو زہر پلوایا گیا
کہنا چاہا اس نے کچھ تو کٹ گئی اسکی زباں
کچھ لکھا اس نے تو دیواروں میں چنوایا گیا
No comments:
Post a Comment